Thursday, 2 October 2014

مولوی ہی مطعون کیوں؟


ایک عرصے سے دنیا کا نظام تبدیل ہو چکا اور ہر فیلڈ میں اتنی وسعت آ چکی کہ ایک ایک کام میں کئی ذیلی شاخین اور ادرے بن گئے،
اب ایک ایک کام کے لئے اسپیشلائیزیشن کی ضرورت پڑتی ہے، کسی بھی انسان کے لئے تمام کام کرنے تو درکنار دو قریب کی فیلڈ والے بھی ایک دسرے کے کام کے متعلق نہیں جانتے،
لیکن علماء اورع دین دار طبقے سے ہم ہر کام کے خواہاں ہیں۔
ہم کیوں چاہتے ہیں کہ علماء ایک وقت میں نماز میں امام ،جمعہ میں خطیب،جنازے میں ایک نوحہ خواں،شر کی روک تھام میں مصلح،باطل کے خلاف ایک ننگی تلوار ،اور کفر کے خلاف ایک مجاہد ہو،
لیکن ایک کان کے ڈاکٹر سے آنکھ کے علاج کا مطالبہ ہم نہیں کرتے،
ایک دل کے ڈاکٹر سے ہم دماغ کے علاج کا مطالبہ نہیں کرتے؟
اسی طرح دیگر اسپیشلائیزیشن میں بھی ہم کسی دوسرے کام کا مطالبہ نہیں کرتے۔
اچھاباقی لوگ بھی غلطی کرتے ہیں ،لیکن ان میں سے کسی ایک کی غلطی کی وجہ سے ۔۔۔۔۔
ہم ڈاکٹر کی غلطی کی وجہ سے علاج نہیں چھوڑتے،
کسی انجینیئر کی وجہ سے اس فیلڈ کو نہیں چھورٹے؟
حالانکہ،
ڈاکٹر،لاپرواہی،غفلت کے مرتکب ہو کر کئی جانیں گنوا چکے،
انجینیئر کئی پل گرا چکے،
پائلٹ کئی بات شراب پی کر جہاز اڑا چکے،
کالج اور یونیورسٹیز کے استاد اور پروفیسر ریب کے مرتکب ہو چکے،
اس طرح دیگر فیلڈ کی بھی مثال دی جا سکتی ہے۔
لیکن جب بات دین کی یا علماء کی آتی ہے تو ہم روشن خیالی،اصول پسندی اور میانہ روی بھول جاتے ہیں۔ہمیں ہر مولوی گناہ گار،ہر ایک بدکردار کیوں نظر آنے لگتا ہے،
حقیقت یہ ہے کہ ان علماء کو دین کی چوکیداری کی سزا دی جا رہی ہے، مختلف عنوانات سے علماء کو بدنام کر کے لوگوں کے دلوں سے علماء کی عقیدت ختم کی جا رہی ہے،خدا نہ کرے اگر دشمن کامیاب ہو گیا تو وہ دن مسلمانوں کے لئے تاریخ کا سیاہ دن ہو گا،
کیوں کتابیں تو ہر جگہ اور دور میں موجود تھیں اور ہوں گی،لیکن ان کتابوں کی تشریح اور عمل کی ترغیب ان علماء نے کرنے ہے اور غلظ کو غلط کہنا ہے،اگر یہ نہ رہے تو جو چاہے جس طرح چاہے کہے گا اور عوام اس کے پیچھے چل نکلے گی،
دشمن اسلام اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس وقت علماء کو سمجھ رہا ہے،اس لئے مختلف عنوانات سے انھیں گِرانے کی کوشش کر رہا ہے،
العلماء ورثۃ الانبیاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے مختلف انداز ،یں علماء کے خلاف پروپیگنڈا کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔

مہذب قومیں۔


ہر مہذب قوم اپنے افرد کی اخلاقی تعلیمی تربیت کا اہتمام کرتی ہے،اور جو قوم اخلاقیات طہ نہیں کرتی تو اس قوم کے افراد بظاہر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی گنوار ہی ہوتے ہیں۔اسلام نے اپنے پیروکاروں کی انفرادی زندگی سے لیکر اجتماعی زندگی گزارنے کے سنہری اصول بتائے اور سکھلائے، لیکن بعض لوگوں کو اسلام یا دین کے نام سے الرجی ہوتی ہے، اسلئے اس طرح کے لوگوں کے لئے ان لوگوں کی باتیں کارگر ثابت ہو سکتی ہیں ،جنھیں وہ مہذب سمجھتے ہیں یا ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بھی موبائل فون کے استعمال میں انتہائی بے احتیاطی بھرتی جاتی ہے، مختصر تعارف کے بعد کام کی بات کرنے کی بجائے الجھا کر ایک دوسرے کو تنگ کیا جا تا ہے،اور اس میں دوسرے کی مصروفیت اور تکلیف کا احساس تک نہیں کیا جاتا،ذیل میں شمالی کوریا میں موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بعد کچھ سرکاری قوانیں واضع کیے گئے ہیں جن میں کچھ اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے۔انھیں ہم بھی استعمال کر کے مہذب قوم بن سکتے ہین اور وقت بھی بچا سکتے ہیں۔
شمالی کوریا میں موبائل فون سروس سنہ 2008 میں شروع کی گئی تھی اور اب وہاں 20 لاکھ سے زیادہ موبائل صارفین ہیں۔تاہم ان صارفین کو بیرونِ ملک فون کرنے کی اجازت نہیں ہے اور موبائل استعمال کرنے والے زیادہ تر لوگ سماج کے امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اسی مضمون میں کہا گیا ہے کہ’فون پر زور زور سے بات کرنا‘ اور ’عوامی مقامات پر بات کرتے وقت بحث کرنا‘ غیرمناسب رویوں میں شامل ہیں۔

مضمون میں لوگوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ موبائل پر کال کرنے والے کا نمبر آ رہا ہوتا ہے لیکن غیرضروری بات چیت سے پرہیز کے لیے لوگ لینڈ لائن فون پر بات کرنے کے آداب کی طرح موبائل فون کال پر بھی پہلے اپنا تعارف کروائیں۔

مصنف کے مطابق ایسا کرنے سے کال کے دوران مخاطب کا نام پوچھنے کے غیرضروری عمل سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

جریدے کے مطابق اس کے علاوہ کال سننے والا شخص اگر کال کرنے والے کو پہلے اس کے نام سے مخاطب کر لے تو کال کرنے والے کو شناخت کے جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں پڑے گا۔

شمالی کوریا کے رہنما ایک موبائل کمپنی کا معائنہ کرتے ہوئے غیر ضروری بات چیت کے بجائے لوگوں کو کوئی بھی کال رسيو کرتے وقت پہلے خود کا تعارف کرانا چاہئے اور کال کرنے والے کو اگر آپ جانتے ہیں تو فورا ان کو بتا دیں تاکہ وہ بھی خود کا تعارف دینے سے بچ جائیں.

۔۔۔۔طلاق کے طبعی اور اخلاقی نقصانات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:۔۔۔۔۔۔۔۔۔:


نکاح ایک مستقل بنیاد پر تعلق قائم کرنے کا نام ہے،جسے مجبوری کی صورت میں ختم بھی کیا جا سکتا ہے، اسلام نے نکاح کو دوام دینے کی ترغیب دی،اور نباہ نہ ہونے کی صورت میں طلاق کی اجازت دی ہے جسے ابغض الحلال قرار دیا ہے اور حتی الامکان اس سے بچنے کا کہاہے،
طلاق سے جہاں دو خاندان وں کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں وہاں اولاد بھی تباہ ہو جاتی ہے،مزید انسانی صحت اور نفسیاتی طور پرکس اثر پڑتا ہے جانیئے اس رپورٹ میں

جنرل آف لیز ہیلتھ میں شائع ہونے والی جدید تحقیق کے مطابق یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جیون ساتھی سے دوری یا طلاق کسی بھی انسان کو ذہنی اور جسمانی اذیت سے دوچار کرتی ہے۔ اس مطالعاتی تحقیق کے مطابق طلاق یافتہ یا غیر شادی شدہ افراد شادی شدہ لوگوں کی نسبت زیادہ تناو، اضطرابی کیفیت اور مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس جرنل میں ”طلاق کا انسانی صحت پر اثرات“ کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ طلاق یافتہ افراد کی اموات کی بڑی وجوہات میں دل کی بیماریاں، بلند فشار خون اور دل کا دورہ ہیں۔ اس کے علاوہ کئی لوگ کینسر جیسی موذی مرض میں بھی مبتلا پائے گئے ہیں۔ ایسے لوگ اخلاقی گرائٹوں کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ ان کی اکثریت مے نوش اور دیگر نشوں میں دھت پائی جاتی ہے۔ ان مایوس لوگوں میں خود کشی کی شرح عام اور نارمل انسانوں سے 39 فیصد زیادہ ہوتی ہے جبکہ دماغی امراض کی شرح عام لوگوں سے 10 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل سوسائٹی آف فیز ہیلتھ کے صدر ڈاکٹر ایڈوان کہتے ہیں کہ طلاق یافتہ انسان کے نفسیاتی زخم بہت گہرے ہوتے ہیں اور وہ منفی زندگی اپنانے میں دیر نہیں کرتے ایسے لوگوں کو مریض قرار دے کر ان کے علاج معالجے کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ یہ دکھی اور محروم طبقے کے لوگ بھی صحت مند معاشرے کا حصہ بن سکیں۔

:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میٹھا میٹھا انقلاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔:

پاکستانی ہی پاکستانی سے دست و گریباں ہیں. نہیں معلوم ان میں سے کون جیتے گا اور کون ہارے گا .لیکن #""پاکستان"" ضرور ہار جائے گا .
اس وقت تو #پاکستان ہی ہار رہا ہے . وہی نقصان میں جارہا ہے. مگر ظاہر ہے عمران خان اور علامہ صاحب کو ایسی عقل و دانش کی باتیں پڑھنے کی فرصت کہاں ہوگی. یہ تو ہمارے لئے ہی ہیں کہ اب ہمارے #ملک ہمارے #وطن کا کیا ہوگا
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کا استحصال ہو رہا ہے،اور ہم اس قدر دب چکے کی ہمیں اپنے حقوق اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا بھی نہیں پتہ،لیکن حقوق لینے کا درست طریقہ بھی تو ضروری ہے۔
اس کے لئے سب سے پہلے قوم میں شعور اور وہ تعلیم سے آ سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو شعور، پھرایک مقرر مقدار میں ایسی باصلاحیت ٹیم جو خود بھی دیانت دار ہو اور باقی کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہوباقی قوم کو تب جا کر ٹھیک کرنا اور سدھارنا ممکن ہو گا، اور اگر ایسے بے ہنگم انقلاب لایا گیا تو وہ کسی مثبت تبدیلی کی بجائے ،خانہ جنگی قتل وغارت اور لوٹ مار کو جنم دے گا،جس سے عدم استحکام پیدا ہو گا اور پاکستان اور اس کی عوام تباہ ہو جائے گی۔
آج تک جتنے بھی لوگ اور جماعتیں انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کرتی ہیں ان کے پاس انقلاب کا کوئی مناسب پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،یہ سنجیدگی سے زیادہ ایک مسخرہ پن ہے،جس میں سوائے ہلہ گُلہ کے کچھ نہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اوراس سے بہتری آئے گی،میرے خیال میں یہ شعور دینے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ورنہ لاکھوں لوگ ان کے ساتھ نکلتے، جب کہ حال یہ ہے کہ لوگ دن بھر اپنے کام کرتے ہیں اور شام کی روٹی کھانے ان کے پاس آ جاتے ہیں۔
جہاں تک ٹیم کا تعلق ہے تو عمران خان کے پاس تو ایک بڑی تعداد میں وہی لوگ ہیں جو سابقہ سسٹم اور حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔
قادری صاحب کے پاس اگرچہ پاک صاف لوگ ہیں لیکن ان کا آج تک عملی تجربہ کیا ہے؟ قادری صاحب اپنی زندگی میں ایک بار ایم این اے بنے اور وہ بھی ایک سال میں استعفی دے گئے،اب یا تو انقلاب کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہیے یا انقلاب کی پوری تیاری اور صلاحیت ہونی چاہیے،آدھا تیتر آدھا بٹیر سے کام نہیں چلے گا، ایک طرف انقلاب کی باتیں اور وہ بھی ائیر کنڈیشن کنٹینر میں بیٹھ کر،پھر پر امن انقلاب،اور اس کے لئے نہ ٹیم اور نہ ہی تجربہ،
اگر تو کونی انقلاب ہو تو کہا جا سکتا تھا کہ ڈنڈے کے زور پر سب کچھ ٹھیک کر دیا جائے گا۔لیکن اس کے لئے قربانی اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے،جس کے لئے دونوں حضرات تیار نہیں،اور میٹھا میٹھا انقلاب لانے کے لئے ٹیم ورک اور عوام حمایت ھاصل نہیں۔

:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کے مسائل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:


آج ہر طرف مسائل کا رونا رویا جا رہا ہے،ان ان کے حل کی تجاویز دی جا رہی ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ حقیقی مسئلہ کیا ہے،اور اس کا حل کیا ہے،میرے خیال میں غربت افلاس کرپشن رشوت کام چوری یہ بیماری نہیں بلکہ بیماری کے نتیجہ یا نتیجے میں آنے والا رد عمل ہے، اصل بیماری اور اس کا علاج کسی کے ذہن میں نہیں آتا اور نہ کوئی سوچتا ہے۔
بعض لوگ انقلاب کی بات کرتے ہیں یا اسلامی نظام کی۔تو کیا ان لوگوں کے پاس جادو کی چھڑی ہو گی کہ سب کچھ ایک دم سے ٹھیک ہو جائے گا؟
انقلاب اور تبدیلی کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ،ایک خونی انقلاب جہاں ڈنڈے سے سب کچھ کنٹرول کیا جاتا ہے ،اور ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے،اس انقلاب کے لئے دکھ تکالیف پریشانیاں مصیبتیں دیکھنی اور جھیلنی پڑتی ہیں اس لئے اس کے لئے تو ہم تیار نہیں۔
اور دوسرا انقلاب جسے آپ پارلیمانی انقلاب کہہ سکتے ہیں کہ عوام با شعور ہو اور وہ اپنے لئے رفتہ رفتہ قوانیں بنوائے،اس کے لئے بھی جہد مسلسل چاہیے،اور ممکن ہے کسی کی محنت کا پھل پوتے یا پڑپوتے کھائیں،لیکن ہم جلد باز ہیں کہ پودا لگانے سے پہلے پھل توڑ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ مرض کی تشحیص کون کرے اور اس کا علاج کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔آج کے دور میں اگر کینسر کا علاج گلی محلہ کا ڈاکٹر نہیں کر پاتا ، تو انقلاب بھی کوئی اتنی ہلکی چیز نہیں کہ ہر ایر اغیرا،نتھو خیرا اٹھ کر انقلاب کی باتیں کرنے لگے،ویسے تو باتونی بہت سارے مل جائیں گے لیکن دیانت دار ایماندار اور با صلاحیت نہیں ملے گا,اس کے لئے عوام کو ایک مسلسل کوشش سے با شعور کرنے کی ضرورت ہے پھر اس سے قیادت پیدا ہو اور وہ کوئی انقلاب لائے,اب کسی مسیحا نے آسمان سے تو نہیں اترنا، اور عوام میں صحیح اور غلط کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے جو بھی نعرہ لگائے اسے اپنا مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
دیکھیں: کسی کا درویش ہونا یا مخلص ہونا کافی نہیں،ضروری نہین کہ ایک آدمی جو دیانت دار ہو وہ اچھا لیڈر بھی ہو،
ایک حکمران بیک وقت دیانت دار، امانت دار با کردار باصلاحیت اور امور مملکت اور دنیا کے ہیر پھیر سے سے واقف ہونا چاہیئے۔اگر کسی کو ایک صفت کی وجہ سے قبول کر لیں اور وہ باقی کام نہ کر سکے تو پھر بھی ناکامی ہی ہے،لیڈرانہ صلاحیت اور باکردار ہونا ضروری ہے،جو فی الوقت ناپید سا ہے۔
آ ج ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ،جس سے ہر ایک اپنے غم میں ہی گھٹ رہا ہے لیکن اگر ہم ایک ہو کر انسانیت اور پاکستانی کی بات نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے، بلکہ ہم ایک دوسرے پر غصب کے الزام اور ایک دوسرے کو زیر کرنے میں اپنی صلاحیتیں ضائع کرتے رہیں گے۔

Wednesday, 24 September 2014

اہلسنت والجماعت اور ضمنی الیکشن

اہلسنت والجماعت اور ضمنی الیکشن ۔ تحریر (ابو الحسن)

تاریخ و وقت: 2014-04-28 13:00:00
ایک عرصہ تھی مذہبی جماعتاں شدت پسندی اور دہشت گردی نا لیبل لگا وا۔ اِس امیج کی ٹھیک کی،تے واستے علماء میانہ روی اور مہذب انداذ وِچ کَم کرنے ناں پروگرام بنایا واہ ۔ کافی عرصہ پہلے،یاں تک علماء صرف مسجد (مسِیت )اور مدرسے،آں تک محدود ایسے۔ لیکن حالات نِی روش نے مطابق علماء سکولاں نِی تعلیم اور سیاسُت نِی طرف وی آئے۔ اے ایک بڑا اچھا اقدام آ کہ علماء دین نال عصری علوم تھی وی واقف ہُن۔ اِس ٹیم علماء نِی ایک بڑی تعداد دس نظامی نال ایم۔اے نِی ڈگری نِی حامل اِی۔ اور بہت سارے پرائیویٹ طور اُپ،ُپُر پڑھے کی لگے،اوئے۔ اہلسنت نے ہر دلعزیز رہنماء حافظ اقرار اور درس نظامی نال ایل۔ایل بی نے سٹوڈنٹ وی رہی چُکے۔ اگر حالات سازگار ہونے تے شاید آئی او کی،سہ جائی ہُن آر۔ چنانچہ اُن،نا مخدوش حالات وچ تعلیم کی خیر آباد آخی تہ۔ عملی زندگی نِی طرف آئے۔ اور اقراء سکول نِی بنیاد رکھی۔ جیڑا اِس ٹیم پنڈی اسلام آباد کشمیر اور اطراف وِچ ایک بڑا نٹ ورک بنی چُکا۔ اس وِچ دینی تعلیم نال بچے،آن، کی دنیاوی تعلیم اور حفظ کَر،را،یا گشنہ آ۔ 2013 نے الیکشن وِچ حافظ اقرار اور پہلی وار دوستاں نِے آخے، ایر سیاسُت نِی طرف آئے اور ایک ہَل،چل مچائی شوڑی نے۔ ایک مڈل کلاس یا اِس تھی وی کم مالی پوزیشن نا آدمی وقت نے دولتمنداں اور۔ ۔ ۔ نے مقابلے،وچ آیا اگرچہ بظاہر تے اُن،نا ۔ اِی،اے آخے آ کہ اساں کی اِس نال کوئی فرق نا پہ،ناں لیکن مختلف صحافی گواہ ،اے کہ اُن،ناں کی آخے،یا، گا کہ اِس حافظ اقرار کی کوریج نہ دے،او۔ اس ٹیم جہدوں سردار مہتاب اوراں نے استعفی تھی بعد سیٹ خالی ہوئی تہ ۔ حافظ اقرار اور خالی ہتھ فِر میدان وِچ اچھے تائیں تیار ہوئی گے۔ اُن۔نا میٹنگاں شروع کری کِن،دی،اے،سِی،یاں۔ لیکُن اس تھی پہلیاں کہ حافظ اور کاغذات نامزدگی جمع کرآن ۔ اُن،ناں کی گرفتار کی،تا گا۔ حالانکہ او ایک معتدل مزاج اور ڈائیلاگ اُپ،پُر یقین رکھے والے آدمی سے۔ اُن،نا نا شدت پسندی اور تفرقہ بازی نال عملی طور اُپ،پُر کوئی تعلق نَس،سا۔ بہر حال اُو گرفتار ہوئی گے۔ تہ ہُن اہلسنت فیصلہ کِی،تہ کہ پِچ،چے نہ ہٹنا ۔ بلکہ اپنے کی،سہ اور آدمی،ایں کی سامنے اَن،نا وا۔ اس ٹیم اہلسنت نے پنج بندے وے جِناں وچ،چا کوئی ایک سامنے آندا گے،سِی۔ مولوی عثمان بیروٹ ، قاری عبد اللہ دلولہ، محسن خان ایوبیہ صدر الفاروق یوتھ ونگ ،افتخار عباسی سُرجال اور حافظ حسان ترمُتھیاں۔ اہلسنت ناں پک،کا تہیہ وا کہ اُو کِی،سہ صورُت وِچ وی میدان ہُن خالی نائے چھوڑنے وے۔ تاکہ علماء عوام نِی دینی رہنمائی نال سیاسی ہنمائ ناں وی کردار ادا کر،رُن۔

یونین کونسُل بیروٹ :

یونین کونسُل بیروٹ : ۔ ۔ تحریر: ۔ ۔( ابو الحسن )

تاریخ و وقت: 2014-04-23 14:00:00
میں کَل ایک تحریر پوسٹ کی،تِی اے،سِی جِس وِچ لِخے،یا۔سا کہ بیروٹ وِچ سو فیصُد لوک پڑھے ہوئے وے۔ تہ آفتاب صاحب مولی،یہ والے،آن کمنٹس وچ آخے،آ کہ ہاں ڈرائیور ۔ ۔ ۔ کہ میں پچ،چھے ناں حق رکھنا،ہس کہ ڈرائیور وی معاشرے نِی ضرورت اِی۔ اِی،یہ طعنہ ایک وار سعید صاحب وی باسیاں جلسے اُپ،پُر دِت،تا اس،سا۔ کہ تعلیم اِس ی آخنے کہ ہر آدمی پی،ایچ ڈی وے یا ہر آدمی سرکاری ملازم وے۔ تعلیم تھی مقصد شعور آ ۔ اور اُو شعور ہر آدمی اپنی استطاعت نے مُطابُق کِن،نا واہ۔ اللہ ناں شکُر آ کہ یونیں کونسُل بیروٹ وِچ تعلیم نے اعتبار نال پی،ایچ ،ڈی اور ایم،فُل والے لوگ اور پیشہ نے اعتبار نال تقریبُن ہر فیلڈ وِچ لوگ موجود اے۔ حالانکہ پڑھنے ناں کوئی ماحول نہ۔ سہولتاں موجود نہی،آں۔ اَس اپنا موازنہ اسلام آباد ایبٹ آباد نے وکان نال نہ کراں ۔بلکہ قیب نے علاقے،آ نال کراں۔ ویسے اگر دیکھے،یا گچھہ تے سارے لوکان نا پڑھنا وی کوئی ضروری نہ بلکہ کچھ لوگ وی پڑھی لخی گچھ،ہُن تے کافی اے۔ اللہ وی آخنے ایک جماعت وے جےڑِی لخنا پڑھنا سیکھہ اور فِر اچھی تے اپنے لوکان کی سکھائے۔ اِس،سہ طرح اللہ لوکاں نا معاش وی مختلف طرح نا رکھے،آ تاکہ لوگ ایک دُو،وے کی کَم اَچ،چُھن ذرا سوچو کہ اگر سارے پڑے لخے ہُن تے فِر اَساں نے کم کُن کر،رہ۔ باقی فِر کُوتے لِخ ساں۔ بعض دوست آخ،نے کہ مختصر لخیا کراں۔
Copyright © 2014 طلوع نیوز.