Thursday, 2 October 2014

:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کے مسائل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:


آج ہر طرف مسائل کا رونا رویا جا رہا ہے،ان ان کے حل کی تجاویز دی جا رہی ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ حقیقی مسئلہ کیا ہے،اور اس کا حل کیا ہے،میرے خیال میں غربت افلاس کرپشن رشوت کام چوری یہ بیماری نہیں بلکہ بیماری کے نتیجہ یا نتیجے میں آنے والا رد عمل ہے، اصل بیماری اور اس کا علاج کسی کے ذہن میں نہیں آتا اور نہ کوئی سوچتا ہے۔
بعض لوگ انقلاب کی بات کرتے ہیں یا اسلامی نظام کی۔تو کیا ان لوگوں کے پاس جادو کی چھڑی ہو گی کہ سب کچھ ایک دم سے ٹھیک ہو جائے گا؟
انقلاب اور تبدیلی کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ،ایک خونی انقلاب جہاں ڈنڈے سے سب کچھ کنٹرول کیا جاتا ہے ،اور ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے،اس انقلاب کے لئے دکھ تکالیف پریشانیاں مصیبتیں دیکھنی اور جھیلنی پڑتی ہیں اس لئے اس کے لئے تو ہم تیار نہیں۔
اور دوسرا انقلاب جسے آپ پارلیمانی انقلاب کہہ سکتے ہیں کہ عوام با شعور ہو اور وہ اپنے لئے رفتہ رفتہ قوانیں بنوائے،اس کے لئے بھی جہد مسلسل چاہیے،اور ممکن ہے کسی کی محنت کا پھل پوتے یا پڑپوتے کھائیں،لیکن ہم جلد باز ہیں کہ پودا لگانے سے پہلے پھل توڑ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ مرض کی تشحیص کون کرے اور اس کا علاج کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔آج کے دور میں اگر کینسر کا علاج گلی محلہ کا ڈاکٹر نہیں کر پاتا ، تو انقلاب بھی کوئی اتنی ہلکی چیز نہیں کہ ہر ایر اغیرا،نتھو خیرا اٹھ کر انقلاب کی باتیں کرنے لگے،ویسے تو باتونی بہت سارے مل جائیں گے لیکن دیانت دار ایماندار اور با صلاحیت نہیں ملے گا,اس کے لئے عوام کو ایک مسلسل کوشش سے با شعور کرنے کی ضرورت ہے پھر اس سے قیادت پیدا ہو اور وہ کوئی انقلاب لائے,اب کسی مسیحا نے آسمان سے تو نہیں اترنا، اور عوام میں صحیح اور غلط کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے جو بھی نعرہ لگائے اسے اپنا مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
دیکھیں: کسی کا درویش ہونا یا مخلص ہونا کافی نہیں،ضروری نہین کہ ایک آدمی جو دیانت دار ہو وہ اچھا لیڈر بھی ہو،
ایک حکمران بیک وقت دیانت دار، امانت دار با کردار باصلاحیت اور امور مملکت اور دنیا کے ہیر پھیر سے سے واقف ہونا چاہیئے۔اگر کسی کو ایک صفت کی وجہ سے قبول کر لیں اور وہ باقی کام نہ کر سکے تو پھر بھی ناکامی ہی ہے،لیڈرانہ صلاحیت اور باکردار ہونا ضروری ہے،جو فی الوقت ناپید سا ہے۔
آ ج ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ،جس سے ہر ایک اپنے غم میں ہی گھٹ رہا ہے لیکن اگر ہم ایک ہو کر انسانیت اور پاکستانی کی بات نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے، بلکہ ہم ایک دوسرے پر غصب کے الزام اور ایک دوسرے کو زیر کرنے میں اپنی صلاحیتیں ضائع کرتے رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment