۔۔:
پاکستانی ہی پاکستانی سے دست و گریباں ہیں. نہیں معلوم ان میں سے کون جیتے گا اور کون ہارے گا .لیکن #""پاکستان"" ضرور ہار جائے گا .
اس وقت تو #پاکستان ہی ہار رہا ہے . وہی نقصان میں جارہا ہے. مگر ظاہر ہے عمران خان اور علامہ صاحب کو ایسی عقل و دانش کی باتیں پڑھنے کی فرصت کہاں ہوگی. یہ تو ہمارے لئے ہی ہیں کہ اب ہمارے #ملک ہمارے #وطن کا کیا ہوگا
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کا استحصال ہو رہا ہے،اور ہم اس قدر دب چکے کی ہمیں اپنے حقوق اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا بھی نہیں پتہ،لیکن حقوق لینے کا درست طریقہ بھی تو ضروری ہے۔
اس کے لئے سب سے پہلے قوم میں شعور اور وہ تعلیم سے آ سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو شعور، پھرایک مقرر مقدار میں ایسی باصلاحیت ٹیم جو خود بھی دیانت دار ہو اور باقی کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہوباقی قوم کو تب جا کر ٹھیک کرنا اور سدھارنا ممکن ہو گا، اور اگر ایسے بے ہنگم انقلاب لایا گیا تو وہ کسی مثبت تبدیلی کی بجائے ،خانہ جنگی قتل وغارت اور لوٹ مار کو جنم دے گا،جس سے عدم استحکام پیدا ہو گا اور پاکستان اور اس کی عوام تباہ ہو جائے گی۔
آج تک جتنے بھی لوگ اور جماعتیں انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کرتی ہیں ان کے پاس انقلاب کا کوئی مناسب پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،یہ سنجیدگی سے زیادہ ایک مسخرہ پن ہے،جس میں سوائے ہلہ گُلہ کے کچھ نہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اوراس سے بہتری آئے گی،میرے خیال میں یہ شعور دینے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ورنہ لاکھوں لوگ ان کے ساتھ نکلتے، جب کہ حال یہ ہے کہ لوگ دن بھر اپنے کام کرتے ہیں اور شام کی روٹی کھانے ان کے پاس آ جاتے ہیں۔
جہاں تک ٹیم کا تعلق ہے تو عمران خان کے پاس تو ایک بڑی تعداد میں وہی لوگ ہیں جو سابقہ سسٹم اور حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔
قادری صاحب کے پاس اگرچہ پاک صاف لوگ ہیں لیکن ان کا آج تک عملی تجربہ کیا ہے؟ قادری صاحب اپنی زندگی میں ایک بار ایم این اے بنے اور وہ بھی ایک سال میں استعفی دے گئے،اب یا تو انقلاب کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہیے یا انقلاب کی پوری تیاری اور صلاحیت ہونی چاہیے،آدھا تیتر آدھا بٹیر سے کام نہیں چلے گا، ایک طرف انقلاب کی باتیں اور وہ بھی ائیر کنڈیشن کنٹینر میں بیٹھ کر،پھر پر امن انقلاب،اور اس کے لئے نہ ٹیم اور نہ ہی تجربہ،
اگر تو کونی انقلاب ہو تو کہا جا سکتا تھا کہ ڈنڈے کے زور پر سب کچھ ٹھیک کر دیا جائے گا۔لیکن اس کے لئے قربانی اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے،جس کے لئے دونوں حضرات تیار نہیں،اور میٹھا میٹھا انقلاب لانے کے لئے ٹیم ورک اور عوام حمایت ھاصل نہیں۔
پاکستانی ہی پاکستانی سے دست و گریباں ہیں. نہیں معلوم ان میں سے کون جیتے گا اور کون ہارے گا .لیکن #""پاکستان"" ضرور ہار جائے گا .
اس وقت تو #پاکستان ہی ہار رہا ہے . وہی نقصان میں جارہا ہے. مگر ظاہر ہے عمران خان اور علامہ صاحب کو ایسی عقل و دانش کی باتیں پڑھنے کی فرصت کہاں ہوگی. یہ تو ہمارے لئے ہی ہیں کہ اب ہمارے #ملک ہمارے #وطن کا کیا ہوگا
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کا استحصال ہو رہا ہے،اور ہم اس قدر دب چکے کی ہمیں اپنے حقوق اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا بھی نہیں پتہ،لیکن حقوق لینے کا درست طریقہ بھی تو ضروری ہے۔
اس کے لئے سب سے پہلے قوم میں شعور اور وہ تعلیم سے آ سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو شعور، پھرایک مقرر مقدار میں ایسی باصلاحیت ٹیم جو خود بھی دیانت دار ہو اور باقی کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہوباقی قوم کو تب جا کر ٹھیک کرنا اور سدھارنا ممکن ہو گا، اور اگر ایسے بے ہنگم انقلاب لایا گیا تو وہ کسی مثبت تبدیلی کی بجائے ،خانہ جنگی قتل وغارت اور لوٹ مار کو جنم دے گا،جس سے عدم استحکام پیدا ہو گا اور پاکستان اور اس کی عوام تباہ ہو جائے گی۔
آج تک جتنے بھی لوگ اور جماعتیں انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کرتی ہیں ان کے پاس انقلاب کا کوئی مناسب پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،یہ سنجیدگی سے زیادہ ایک مسخرہ پن ہے،جس میں سوائے ہلہ گُلہ کے کچھ نہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اوراس سے بہتری آئے گی،میرے خیال میں یہ شعور دینے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ورنہ لاکھوں لوگ ان کے ساتھ نکلتے، جب کہ حال یہ ہے کہ لوگ دن بھر اپنے کام کرتے ہیں اور شام کی روٹی کھانے ان کے پاس آ جاتے ہیں۔
جہاں تک ٹیم کا تعلق ہے تو عمران خان کے پاس تو ایک بڑی تعداد میں وہی لوگ ہیں جو سابقہ سسٹم اور حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔
قادری صاحب کے پاس اگرچہ پاک صاف لوگ ہیں لیکن ان کا آج تک عملی تجربہ کیا ہے؟ قادری صاحب اپنی زندگی میں ایک بار ایم این اے بنے اور وہ بھی ایک سال میں استعفی دے گئے،اب یا تو انقلاب کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہیے یا انقلاب کی پوری تیاری اور صلاحیت ہونی چاہیے،آدھا تیتر آدھا بٹیر سے کام نہیں چلے گا، ایک طرف انقلاب کی باتیں اور وہ بھی ائیر کنڈیشن کنٹینر میں بیٹھ کر،پھر پر امن انقلاب،اور اس کے لئے نہ ٹیم اور نہ ہی تجربہ،
اگر تو کونی انقلاب ہو تو کہا جا سکتا تھا کہ ڈنڈے کے زور پر سب کچھ ٹھیک کر دیا جائے گا۔لیکن اس کے لئے قربانی اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے،جس کے لئے دونوں حضرات تیار نہیں،اور میٹھا میٹھا انقلاب لانے کے لئے ٹیم ورک اور عوام حمایت ھاصل نہیں۔
No comments:
Post a Comment