:
اسلام میں قرن اول( تقریبا پہلی صدی ) سے ہی اختلافات شروع ہو گئے تھے،اور یہ اختلافات علمی نوعیت کے تھے، اگرچہ بعض جگہ انھیں سیاسی طور پر بھی استعمال کیا گیا، عوام الناس میں ان اختلافات کو اچھالا گیا،لیکن علماء نے ایک دوسرے کا احترام نہیں چھوڑاَ
مشہور واقع امام ابو حنیفہ ؒ اور امام شافعی کا ہے،
کہ امام شافعیؒ نے اپنی مسجد میں امام ابو حنیفہؒ کی آمد پر قنوت نہیں پڑھی اور کہا کہ ی امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک فجر کی نماز میں نہیں،
اور اسی طرح کا واقع امام ابو حنیفہؒ کا بھی نقل کیا جاتا ہے کہ انھوں نے امام شافعیؒ کی آمد پر فجر کی نماز میں قنوت پڑھی،
اسی طرح تقریبا ہر صدی میں علماء اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے رہے، ماضی قریب میں دیوبند کے دو بڑے عالم(مولانا سین احمد مدنیؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ) جن کا سیاست میں اختلاف تھا۔لیکن مجال ہے کہ ایک دوسرے کی ذات کی بابتایک لفظ بھی کہیں۔ بلکہ ایک موقع پر کچھ طلبہ نے مولانا حسین احمد مدنی کے گھر کے باہر کچھ پمفلٹ پھینکا اور اس میں مولانا کو بُرا بھلا کہا َ۔ جب اس کا علم مولاناشبیر احمد عثمانیؒ کو ہوا تو نا صرف ناراضگی کا اظہار کیا بلکہ جامعہ آنا چھوڑ دیا،اور غلظ حرکت کرنے والے طلبہ کے اخراج کا مطالبہ کیا۔
اب موجودہ زمانے میں کچھ لوگ فرقہ واریت کا ازام دے کر اسلام اور علماء سے وگوں کو د ظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جس طرح کہ یہ کوئی نئی بات ہے۔اور حوالہ قرآن کی ان آیات کا دیتے ہیں جن مں اللہنے یہود کی فرقہ واریت کی مذمت کی ہے۔
سب سے پہلی بات کہ یہود یت اور اسلام میں فرق ہے اللہ نے اسام میں لچک رکھی ہے،جس کی وجہ سے اسلام ہر زمانہ اور سوسائٹی کے ہر انسان کے لئے قابل عمل ہے،اسی وجہ سے شاد 15 سو سال سے کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے۔
جب کہ یہودیت اور دیگر مذاہب میں ایسا نہیں تھا،جس کی وجہ سے وپ ادیان وقت کے نبیؑ کے عد کچھ زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ سکے۔
اسلام میں لچک کی ایک مثال، آپﷺ کے زمانے سے:
آپﷺ جب خیبر فتح کرنے کے لئے نکلے تو آپﷺ نے فرمایا: عصر کی نماز نہں پڑھنی تاوقتیکہ ہم خیبر پہنچ جائیں(مفہوم حدیث)
اب کچھ صحابہ نے اس حدیث ے طاہری اور فوری معنی مراد لئے اور عصر کی نماز میں تاخیر کی،اور کچھ نے اس حکم کا مطلب یہ لیا کہ جلدی وہاں پہنچنا ہے،باقی نماز سے منع کرنا مقصد نہیں۔
جب اس واقع کی آپ ﷺخبر ملی تو آپﷺ نے دونوں گروہوں کی تصویب فرمائی،
اب دیکھیں حکم ایک ہے،مختلف صحابہ نے جس طرح بات کو سمجھا اسیطرح عمل کیا،
بالکل اسی طرح آج بھی علماء جن کے پاس شریعیت قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے وہ اس کی تشریح علماء سابقین کے فہم کے مطابق سمجنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو سمجھ آتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔
لہذا اس طرح کا واویلہ کسی مسلمان کے لئے درست نہیں، دوسری بات علماء کی کئی قسمیں ہیں ایک قسم علماء کی وہ ہے،جن کا تعلق مناطرہ سے ہوتا ہے،اور یہ دین کے ساتھ مذہب و مسلک کا دفاع بھ کرتے ہیں،اور اس میں شدت بھی اختیار کرتے ہیں،اور ایسا کرنا بھی چاہیے، جب کہ دیگر تمام علماء اعتدال کے ساتھ اپنے م،سلک پر عمل پیرا ہوتے ہین۔
اکثر شدت پسندی علماء کی جگہ عوام میں زیادہ پائی جاتی ہے جنیں چند معلومات ہوتی ہیں وہ سارا دین اسی کو سمجھ کر اس کی اشاعت اور تبلیغ میں اپنی قوت صرف کرتے ہیں۔
جہاں تک یہود کی فرقہ بندی کی مذمت کا تعلق ہے تو وہ فرقہ بندی انتہا کو پہنچ ہوئی تھی،ایک دوسرے کو کافر کہتے اور سمجتے تھے،ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ کو بھی رواہ نہیں سمجھتے تھے،بلکہ جنازے تک کو کندھا دینا مناسب نہیں سمجتے تھے،
جب کہ اسلام میں علماء کا رویہ ایسا نہیں ،دیوبندی بریلوی اہلحدیث ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں ایک دوسرے کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں اور شادی بیاہ بھی مختلف مسالک کے لوگوں میں جائز سمجھتے ہیں اور اس کی ممانعت نہیں کرتے۔
اب آپ کھلے دل سے سوچیں کیا یہ وہی فرقہ واریت ہے جس کی مذمت اللہ نے قرآن میں کی یا یہ صرف ہمارے فہم اور عقل کی کوتاہی ہےَ ۔
#مفتی عباسی۔
No comments:
Post a Comment