علماء کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کیا جا رہے ہیں۔۔ جو میں سمجھتا ہوں انتہائی نقصان دے ثابت ہو سکتے ہیں۔۔۔ اس نقصان کی طرف میں نے ایک دوسری پوسٹ میں ذکر کیا تھا۔۔ بعض لوگ تو ایک منصوبہ ندی کے تحت مسلمانوں کو علماء سے دور کرنے کے لئے اور دین کو کھلونا بنانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں اور یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔۔
لیکن کچھ لوگ ان کی دیکھا دیکھی بھی علماء کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کر کے بہت ساروں کی دل آزارری کا سبب بن رہے ہیں۔
ایک غلط فہمی کو دور کر دینا چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علماء پاکستان کے دشمن ہیں۔ یا اس کے بنانے کے مخالف تھے۔جیسا کہ بعض اوقات پوسٹ میں بھی ذکر کیا جاتا ہے۔
تو تمام ممبر نوٹ کر لیں کہ مسلم لیگ 1905 میں بنی اور 1938 میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور اس کے بعد پاکستان کے لئے کوشش کی گئی۔
یہ تھی جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی اکستان کے لئے کو شش، جبکہ علماء نے 1857 کی جنگ آزادی لڑی او اس وقت سے مسلسل آزادی کی کوشش میں رہے اس دوران کتنے شہید ہوئے کتنے ملک بدر ہوئے اور کتنوں کو جیل ک صعوبت برداشت کرنے پڑی۔ یہ کسی بھی تاریخ کے طالب علم سے پوشیدہ نہیں۔
اور 1905 سے 1947 کے زمانے میں بھی اکثر جگہ علماء کی وجہ سے کامیابی ملی۔۔ کون نہیں جانتا کہ موجودہ کے،پی،کے میں خان عبد الغفار خان کا اولڈ تھا اور وہ پکا کانگریسی تھا۔۔الیکشن مین کامیابی کی مہم چلانے کے لئے دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس مولانا شبیر احمد عثمانی بڑھاپے کے باوجود دیوبند سے پشاور کا رخ کرتے ہیں اور یہاں کی عوام کو قائل کرتے ہیں۔ اور نتیجتا مسلم لیگ ہارہ ہوا الیکشن جیت جاتی ہے۔۔۔
مولانا اشف علی تھانوی کے کہنے پر مولانا ظفر احمد عثمانی موجودہ بنگلہ دیش کا سفر کرتے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کی مایت پر آمادہ کرتے ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کی موجودگی میں پاکستان اور موجودہ بنگال میں یہی دو عالم دین پرچم کشائی کرتے ہیں۔۔۔
یہ مختصرا ذکر کیا ہے تفصیل پھرکھبی ۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک تعلق ہے کہ بعض علماء نے پاکستان کی مخالفت کی۔۔ اور یہ مختلف مسلک کے علماء تھے۔۔۔ جیسے احمد رضا خان بریلوی مسلک کے تھے انہوں نے بھی قائد اعظم کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے۔ مولانا ابو الکلام آزاد اہلحدیث مسلک کے تھے اور مولانا حسین احمد مدنی دیوبند مسلک کے تھے۔اول الذکر تو غالبا فوت ہو گئے تھے۔ آخر رالذکر دونوں نے پاکستان بننے کے بعد پاکستان کو مسجد کا درجہ دیا۔۔۔ اس پر تقاریر موجود ہیں۔۔
اسی طرح جماعت اسلامی کی طرف سے بھی مخالفت تھی ۔۔۔ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کے حمایتی پاکستان میں نہیں آئے تو اب یہاں کسے گالیاں دینی؟
جماعت اسلامی نے پاکستان بننے کے بعد اپنے سابقہ نظریات کو ختم کر کے پاکستان کو قبول کر لیا۔ تو پھر کیا اعتراض؟
پاکستان بننے کے بعد بھی تمام مسالک کے علماء نے پاکستان میں اسلامی نظام کے لئے کو شش کی ہے۔۔ اور جہاں پر بھی بے ھیائی یا برائی کی بات ہوئی اسے روکنے کی کوشش کی ہے۔ کوئی ایک حکومت یا وقت نہیں کہ جس میں کوشش نہ کی گئی ہو۔۔۔۔
ماضی قریب مین جب مشرف صاحب نے میرا تھن ریس کرائی اور اس میں مخلوط پروگرام کرایا تو اس میں علماءآڑے آئے اور اپنے تئیں کوئی کی حتی کہ اس دوران پولیس سے جھڑپ میں گوجرونولہ مٰن مولنا احمد جان صاحب کا بازو ٹوٹا اور کئی روز وہ ہسپتال اور جیل میں رہے۔۔۔
آج کے دور میں ایک عجیب کشمکش جاری ہے۔ عوام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ایک کو ملا اور دوسرے کو مسٹر بنایا جا رہا ہے۔ اور دونوں کی ذہن سازی اس انداز میں کی جا رہی ہیکہ وہ ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے دور ہوتے جا رہے ہیں۔۔
آج اگر مولوی بولے تو تب بھی گنہگار اور نہ بولے تو تب بھی۔۔۔ ان حالات میں ،میں سمجھتا ہوں کہ ہمناکام اور ہمارا دشمن کامیاب ہو گیا ہے جس نے ہمارے درمیاں ایک خلیج پیدا کر دی جو ہمیں ایکدوسرے کے قریب نہیں آنے دے رہی۔
No comments:
Post a Comment