Monday, 22 September 2014

اسلام اور مسلمانوں میں اختلاف:



مسلمانوں میں اختلاف کی بنیاد سیاست بنی،جس سے گروہ بنے،اور سیاسی بنیاد پر نظریات کا اختلاف وقوع پذیر ہوا،اس حوالے سے پہلے میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
ان ہی سیاسی نظریات کو مذہب کا رنگ دیا گیا تو فرقے بنتے گئے۔اب صورت ال یہ بن چکی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں،کسی کی کی ہوئی تشریح ا بات قبول کرنے کی بجائے ہم اس سے کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں،جس کی بڑی وجہ اختلاف فرقہ ہوتی ہے۔
دیکھیں تو اسلام ایک عالمی(انٹرنیشنل) دین ہے اس کے پیروکاروں کو بھی انٹر نیشنل انداز میں سوچنا چاہیے، /ہو گا،
اگر راہنمان امت کی سوچ چکی کے گرد گھومتی رہی تو یہ اختلافات کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتے رہیں گے، جو دوریاں ہی پیدا کریں گے،قریب نہیں آنے دین گے۔
اس وقت امت کو عالمی چیلنجز کا سامنا ہے،ایک طرف ساری دنیا کا کفر اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے اور دوسری طرف اس کے لئے وہ مسلمانوں کو ہی استعمال بھی کر رہا ہے۔
اسلام کے ابتدائی دنوں میں ہی استشراق (Orientalism) اور مستشرق (Orientalist) کی بنیاد پڑ چکی تھی۔(اس کی تفصیل خود دیکھ لیں)۔
مستشرقین کا ایک اہم ہدف مسلمانوں کی کمزوریاں نوٹ کرنا،اور انھیں اختلافات کا شکار کر کے مزید کمزور کرنا تھا، جس کی اول دن سے کوشش کی جا رہی ہے۔ لہذا آج کے دور میں جو اختلافات امت میں سامنے آ رہے ہیں اس کی ایک اہم وجہ یہی استشرقیت بھی ہے۔ جو مسلمانوں میں موجود عقائد نظریات جو کم اہمیت کی وجہ سے موضوع بحث نہیں ہوتے انھیں بھی ہوا دے دی جاتی ہے ۔ جس سے مسلمان آپس میں گتھم گتھا ہو کر دشمن کا رستہ خالی/صاف کر دیتے ہیں،اور وہ باآسانی اپنے اگلے ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔
جہاں تک اتحاد کی بات ہے تو:
اللہ کافروں کی بابت فرماتے ہیں،کہ جو چیزیں ہمارے درمیان مشترک ہیں ،آؤ ہم ان پر اتحاد کر لیتے ہیں۔

قُلْ: یٰۤاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ. فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا : اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ. یٰۤاَھْلَ الْکِتٰبِ، لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰھِیْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰۃُ وَالاْنْجِیْلُ اِلاَّ مِنْ بَعْدِہٖ، اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟ ھٰۤاَنْتُمْ ھٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ ، فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ. مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.(آل عمران ٣ :٦٤-٦٧)
''کہہ دو : اے اہل کتاب ، اُس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے ، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا اپنا پروردگار نہ قرار دے۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ، ہم تو مسلم ہیں۔ اے اہل کتاب، تم ابراہیم کے بارے میں کیوں حجت کرتے ہو ، دراں حالیکہ تورات اور انجیل تو ابراہیم کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں۔ پھر کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ تمھی لوگ ہو کہ تم اُن چیزوں کے بارے میں حجت کر چکے جن کا تمھیںکچھ علم تھا ، لیکن اب اُس چیز کے بارے میں کیوں حجت کرنے چلے ہو جس کا تمھیں کچھ بھی علم نہیں (اور حقیقت یہ ہے کہ) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ نصرانی، بلکہ ایک مسلم حنیف تھا اور وہ اِن مشرکوں میں سے بھی نہیں تھا۔''
مسلمانوں میں اتحاد اورر اتفاق والی چیزیں زیادہ اور اختلاف والی چیزیں کم ہیں۔ پھر اکثر اختلاف فروعات میں زیادہ اور اصول میں کم ہیں،
اگر ہم ذاتیات اور اناء پرستی کو چھوڑ دیں تو کوئی مشکل نہیں کہ اتحاد نہ ہو سکے۔

No comments:

Post a Comment