۔
بعض لوگ قناعت کا مطلب ہاتھ باندھ کر بیٹھ جانا لیتے ہیں اس لئے وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں،حالانکہ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آپ کو حاصل ہے ،اس کے ساتھ آپ اپنے رشتہ داوں دوستوں کے حقوق ادا کریں ان کی ضروریات حسب توفیق پوری کریں، کیونکہ بعض لوگ اپنے کاروبار اور ملازمت میں اتنے مستغرق ہو جاتے ہیں ،کہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی وہ کاروبار یا ملاز مت بن جاتی ے۔جس سے اللہ کے علاوہ انسانوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔اور ایسی کیفیت حرص لالچ والی بن جاتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔باقی اگر اللہ کسی کو زیادہ مال دے تو یہ دین میںقابل ستائش ہے اس کی مذمت نہیں۔اللہ نے صحابہ پر تنگی کے بعد مال و متاع کے اتنے دروازے کھولے کہ وہ خود بھی حیرت کرتے تھے کہ کہیں اللہ نے جو آخرت کے لئے وعدے کیے ہیں دنیا میں ہی نہ دے رہا ہو،
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ قناعت ہاتھ باندھ کر بیٹھ جانے اور اللہ اللہ کرنے کا نام نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔اس کی تعلیم آپﷺ کی احادیث میں کچھ یوں آیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
دور دراز بیٹھ کر اکیلے میں عبادت کرنے والے کے مقابلے میں وہ شحص جو لوگوں کے درمیان رہ کر معاملات کرتا ہے اور اس کی تکالیف سہتا ہے وہ افضل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے معاش کے لئے تجارت کو اختیار کیا، یہ الگ بات کہ آپﷺ بقدر ضرورت ہی تجارت کرتے تھے۔
#مفتی عباسی
No comments:
Post a Comment