Monday, 22 September 2014
الصبر عندما صدمۃ الاولی،او کما قا ل علیہ السلام۔
ویسے ہر مرنے والے پر دکھ ہوتا ہے، اور یہ فطری بات ہے، آپﷺ کے بیٹے ابراہیم جب فوت ہوئے تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے،آپﷺ نے فرمایا ،اے ابراہیم دل غمزدہ اور انکھیں نم ہیں،
اس حد تک تو رونا ایک فطری بات ہے شریعت میں جو منع ہے وہ جزع فزع کرنا منع ہے، بعض علاقوں میں مرنے والے پر باقاعدہ مخصوص عورتیں آ کر روتی ہیں،اوراس کے محاسن گنواتی ہں۔اور موجود عورتوں کو ھی چیخ و پکار کے ساتھ رونے پر مجبور /آماد کرتی ہیں یہ درست نہیں۔
آپﷺ کے زمانے میں ایک عورت کا بچہ فوت ہو گیا،تو وہ قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی کہ آپﷺ کا وہان سے گزر ہوا تو آپﷺ نے اسے منع کیا، لیکن وہ غمزدہ تھی اسے پتہ نہیں تھا کہ کون ہے،اس نے کچ اس طرح کے الفاظ کہے کہ آپ کو کیا پتہ کہ میرا غم کتنا ہے،۔
خیر آپﷺ وہان سے چلے گئے بعد میں جب اس عورت کوپتہ لگا کہ وہ تو آپﷺ تھے تو اسے پریشانی لاحق ہوئی کہ اس نے بے ادبی کر دی وہ آپﷺ کے پاس آئی اور معذت کی اور کہا کہ وہ اب نہں روئے گی،
تو آپ نے فرمایا۔: الصبر عند ماصدمۃ الاولی،کہ صبر وہ ہوتا ہے جو اول ویلے میں ہو بعد میں خاموشی صبر نہیں ،وہ تو خود ہی آدمی تھک ہار کر خاموش ہو جاتا ہے،
لہذا ایسے موقع پر اس طرح جزع فزع کرنا ،گریبان پھاڑنا ،سینہ کوبی کرنا، چہرہ پیٹنا درست نہیں ،البتہ بغیر آواز کے رونا جو غیر اختیاری ہوتا ہے اس میں حرج نہیں۔
اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے۔
#مفتی عباسی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment