Monday, 22 September 2014

اسلام میں فرقہ پسندی کا الزام/دین سے دوری کا بہانہ



. بسم اللہ الرحمان الرحیم

ہر دور میں دین کا مختلف انداز میں مزاق اڑایا گیا،خاص کر پاک و ہند مں انگریز کی آمد کے ساتھ ،جب اس نے علماء کو اپنی راہ میں بڑی رکاوٹ محسوس کیا تو اِس کے لئے اس نے مختلف طریقے اختیار کئے تاکہ وہ لوگوں کو علماء سے بدظن کر کے عوام کو علماء سے دور کر سکے۔ چونکہ علماء نے جہاد کے ذریعے انگریز کا جینا حرام کیا ہوا تھا ،تو پہلے پہل قرآن کو جلا کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی، تاکہ جب قرآن نہیں ہو گا تو جذبہ جہاد بھی پیدا نہیں ہو گا ۔ لیکن اِس سے بھی کام نہ بنا تو اُس نے نئی چال چلی۔وہ یہ کہ لوگوں کو کہا جائے کہ قرآن سمجھنے کے لئے علماء کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ قرآن کی وہ آیات جِن میں قرآن کا آسان ہونا بیان کیا گیا تھا، ان سے استدلال کر کہ کہا گیا کہ : قرآن خود کہتا ہے کہ وہ آسان ہے پھر ہمیں علماء کا محتاج ہونے کی یا ضرورت۔؟
لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اگر عجمیوں کے لئے قرآن آسان ہے تو پھر عربیوں کہے لئے تو کہیں زیادہ آسان ہونا چاہئے۔ بالخصوص وہ عربی جو قرآن کے اول مخاطب تھے،یعنی صحابہ۔ انھیں کسی پڑھانے والے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے تھی۔
لیکن اس سب کے باوجود اللہ نے نبی کو بھیجا تاکہ وہ انھیں قرآن پڑھ کر سنائے اور سمجھائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کی آیات مختلف طرح کی ہیں ۔بعض آسان اور بعض مشکل، مختلف طرح کی آیات جیسے قصص وغیرہ۔ مشکل احکامات والی آیات،آسان کو تو آدمی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن مشکل کے لئے استاد کی ضرورت سے انکار جہالت ہے۔
اب بعض مشکل ایسی ہیں کہ ان کا مطلب اللہ ہی بہتر جانتا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اب جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے ہمیں علماء کی ضرورت نہیں کیونکہ علماء ٹھیک نہیں ۔ لحاظہ ہم خود ہی ترجمہ دیکھ کر قرآن سمجھ جائیں گے۔اب اں سے سوال یہ ہے کہ : کیا ترجمہ اللہ کی طرف سے ہے یا رسول اللہﷺ کی طرف سے ؟۔ایک طرف تو کہتے ہیں کہ ہمیں علماء پر اعتماد نہیں اور دوسری طرف اُن علماء کا ترجمہ ہی دیکھتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ یہ دھوکہ نہیں؟ لوگوں کو کیا کہتے ہیں اور خود کیا کرتے ہیں؟
یہ جو کہا جا رہا ہے کہ مجھے کوئی جواب نہیں دیتا۔ ارے صاحب یہ منہ اور مسور کی دال۔ کیا علماء اتنے فارغ بیٹھے ہیں کہ ہر ایرے خیرے سے الجھ پڑیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کی صرف ایک آیت کو لیکر ڈنڈورا پیٹنا اور وہ بھی بغیر اسے سمجھے ہوئے۔ یہ تو دیکھو اس آیت میں کس کی بات کی جا رہی ہے؟ اس آیت میں اہل کتاب یہود اور نصاری کی فرقہ پرستی مراد ہے۔ جو ایک دوسرے کو کافر کھلے عام کہتے اور سمجھتے تھے۔ اب آپ قرآن کو اللہ کی مکمل کتاب ماننے والوں میں بتائیں کہ کون کافر کہتا ہے؟ یہ تو سارے ایک دوسرے کے پہیچھے نمازیں پڑھتے ہیں۔ اب اگر آپ یہ کہیں کہ مسلمانوں میں بھی فرقے اچھے نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا متنوع ہے۔ ہر فیلڈ میں مختلف آراء موجود ہیں۔ صرف ڈاکٹر کو لے لیں۔ آپ ایک میض کو 3 ڈاکٹر کے پاس لے جائیں بہت کم امید ہے کہ وہ تینوں ایک مرض تشحیص کریں۔ اسی طرح ایک ڈاکٹر کا لکھا ہوا ایک ہی ٹیسٹ 3 مختلف لیباٹریوں سے کرئیں تینوں کی علیحدہ علیحدہ روپورٹ آئے گی۔ اگر یقین نہیں تو آزما لیں ۔
کیا اس اختلاف کے اوجود ہم ڈاکٹر کے پاس جانے سے رُک جاتے ہیں۔ ؟؟؟
جب ہم دنیا کہ ہ چیز میں تنوع پسند کرتے ہیں تو پھر دین میں کیا مشکل؟
آخی بات یہ کہ اللہ نے نبیﷺ کی ہر سنت زندہ رکھنی تھی ،اس ئے کسی نے ایک کو لیا اور کسی نے دوسری کو۔ کوئی فرقہ (بقول آپ کے) دوسرے کو کافر نہیں کہتا بلکہ یہ اختلاف ترجیح اور افضل کا ہے یعنی ایک کہتا ہے کہ یہ اٖفضل اورر دوسرے کی رائے ہے کہ نہیں یہ افضل ہے۔
بات تفصی طلب ہے اپنی طرف سے مختصر کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی اشکال ہو تو انشاء اللہ شافی جواب دوں گا ۔ اس میں اشارے موجود ہیں کلیے جزئے ملا کر جواب آپ کو مِل جائے گا۔

کیا اس اختلاف کے اوجود ہم ڈاکٹر کے پاس جانے سے رُک جاتے ہیں۔ ؟؟؟
جب ہم دنیا کہ ہ چیز میں تنوع پسند کرتے ہیں تو پھر دین میں کیا مشکل؟
آخی بات یہ کہ اللہ نے نبیﷺ کی ہر سنت زندہ رکھنی تھی ،اس ئے کسی نے ایک کو لیا اور کسی نے دوسری کو۔ کوئی فرقہ (بقول آپ کے) دوسرے کو کافر نہیں کہتا بلکہ یہ اختلاف ترجیح اور افضل کا ہے یعنی ایک کہتا ہے کہ یہ اٖفضل اورر دوسرے کی رائے ہے کہ نہیں یہ افضل ہے۔
بات تفصی طلب ہے اپنی طرف سے مختصر کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی اشکال ہو تو انشاء اللہ شافی جواب دوں گا ۔ اس میں اشارے موجود ہیں کلیے جزئے ملا کر جواب آپ کو مِل جائے گا۔

No comments:

Post a Comment